پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عافیہ صدیقی خود واپس پاکستان نہیں آنا چاہتی ہم نے ان سے بات کی اور امریکہ سے ہم ڈاکٹر شکیل آفریدی کے بدلے میں عافیہ صدیقی کو رہا کروا سکتے ہیں لیکن عافیہ صدیقی خود پاکستان نہیں آنا چاہتے جبکہ دوسری طرف عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت اس بارے میں صرف اور صرف کریڈٹ لینے کے چکر میں تاخیری حربے استعمال کررہا ہے اور شکیل آفریدی کو رہا کروانے کے لیے کچھ کیا جا رہا ہے حالانکہ اس وقت افغانستان میں موجود طالبان کی طرف سے عافیہ صدیقی کی رہائی کی بات کی گئی تھی اور اس کے بدلے میں امریکن افواج کے وہ گرفتار سپاہی امریکہ کے حوالے کیے جائیں گے جو جنگ کے دوران طالبان کے ہاتھ آئے یاد ہے گزشتہ مہینے یہ خبر کافی گرم رہیں گے عمران خان کی کوششوں کی وجہ سے عافیہ صدیقی کو رہا کیا جا رہا ہے لیکن معاملہ جھکادو رہا اور عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی نے اس تمام معاملے کے بارے میں بالکل واضح کہا کہ پاکستان کے ایک عالم دین جوکہ مفتی تقی عثمانی صاحب ہے انہوں نے طالبان سے یہ درخواست کی تھی کہ عافیہ صدیقی کے معاملے پر غور کیا جائے اور ان کو قیدیوں کے تبادلے میں شامل کیا جائے
جس کے بعد افغانستان کے طالبان نے اپنے استاد کی حکم پر لبیک کہتے ہوئے امریکہ سے عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ اٹھایا جب ان کی بہن نے یہ بھی کہا کہ موجودہ حکومت کریڈٹ لینا چاہتی ہے حالانکہ تمام کام صرف اور صرف طالبان کی مدد سے ہو رہے ہیں اور اس میں موجودہ حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے ان کی بہن کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بھی باتیں ہیں کہ عافیہ صدیقی پاکستان نہ آئے ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت ان کو ایسا لگا کہ ان کی بہن کسی وقت بھی پاکستان آ جائے گی کیونکہ حکومت نے ان کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جنوری سے مارچ کے مہینے کے دوران ان کو خوشخبری سنائی جائے گی اور امریکا سے بات چیت چل رہی ہے بعد میں پتہ چلا کہ یہ بات چیت افغانستان کے طالبان کر رہے ہیں نہ کہ ہماری حکومت اور میری بہن نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر قسم کے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہے بس وہ جیل سے باہر آجائیں