ڈاکٹر شاہد مسعود کی بات سچ نکلی


نظریں جن لوگوں نے بھی انٹرنیٹ کے استعمال کیا جو رکھتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ہم زیادہ تر گوگل یا دوسری ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہوئے ڈیٹا حاصل کرتے ہیں اور اس کو کروڑوں کی تعداد میں ڈیٹا مہیا کرتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس سے کئی گناہ زیادہ ڈیٹا ڈارک ویب پر موجود ہے حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور ہر کوئی اس کو استعمال بھی نہیں کر پاتا ڈارک ویب دراصل جب سائٹ کے مقابلے میں ایک الگ چینل ہوتا ہے کہ جس میں دنیا بھر کے جرائم پیشہ افراد اپنے لئے گاہک تلاش کرتے ہیں یہاں قاتل مل جاتے ہیں یہاں ڈاکو مل جاتے ہیں یہاں ہر طرح کا نشہ مل جاتا ہے یہاں پر آپ کو چوری کی چیز مل جاتی ہے جو چیزیں دستیاب ہوتی ہے بچوں کے متعلق خاص کر اخلاق باختہ ویڈیوز یہاں پر بڑی وافر مقدار میں موجود ہوتی ہے اور مخصوص رقم ادا کرنے کے بعد اس کو دیکھا جا سکتا ہے ڈارک ویب کی اصطلاح پاکستان میں سب سنا دیتی جب ڈاکٹر شاہد مسعود زینب کیس کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کے اندر اس کا باقاعدہ گینگ موجود ہے کہ جو بچو کے ساتھ ریپ کرکے ان کو قتل کر کے ان کی ویڈیوز بنا کر بھیجتے ہیں

ڈارک ویب ایک نامعلوم مقام سے آپریٹ کیا جاتا ہے اس کے ویب سائٹ چلانے والے کا بھی علم کسی کو نہیں ہوتا اور نہ ہی اس ویب سائٹ کو استعمال کرنے والے افراد کا علم کسی کو ہوتا ہے اس کے لیے مخصوص طرح کے جب سائٹ اور براؤزر استعمال کیے جاتے ہیں کہ جو وقتن فوقتن اپنا آئی پی ایڈریس چینج کرتے رہتے ہیں یاد رہے کہ جب بھی کوئی شخص انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے تو انٹرنیٹ میں اس کی پہچان کیلئے ایک ایڈریس بن جاتا ہے جو آئی پی ایڈریس کہلاتا ہے اس کے ذریعے مخصوص ادارے جو سکیورٹی سے متعلق ہوتے ہیں کسی بھی شخص کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں اگر آپ کو یاد ہو کہ پاکستان کے اندر مختلف افراد کو سائبر کرائم کے ضمن میں گرفتار کیا گیا تو ان تک پہنچا اسی آئی پی ایڈریس جاتا ہے آپ جب کوئی استعمال کرتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنا آئی پی ایڈریس چینج رکھیں یا پھر چھپا دے اس کے لیے پراکسی کا استعمال کیا جاتا ہے یا پھر مخصوص براؤزر کا استعمال کیا جاتا ہےاونین نامی براؤزر کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے اس براؤزر کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کچھ لمحے بعد چینج کر دیتا ہے تا کہ جو شخص استعمال کر رہا ہے ڈارک ویب آپ کو اس کی پہچان ممکن نہ ہو سکے اور اس تک پہنچا جا سکے گزشتہ دنوں یہ خبر سامنے آئی کی پنجاب ینورسٹی کا ڈیٹا بیس ہیک ہو چکا ہے اور اس میں موجود لڑکیوں کی شناخت ان کی تصاویر ان کی ویڈیوز فون نمبر آئی ڈی کارڈ ان کے گھر کے پتے تمام چوری ہو چکے ہیں اور ڈارک ویب پر بے جا رہے ہیں یہ انتہائی گھناؤنا اور خطرناک الارمنگ صورت حال ہے اور پاکستان کے سائبر میڈیا سیل اس کے بارے میں ابھی تک کچھ کرہی نہیں سکے نہ ابھی تک ان افراد کو گرفتار کیا جا سکا ہے مزید تفصیلات جاننے کے لیے ویڈیو ملاحظہ کریں