بھارت سے حملے کا شدید خطرہ


پاکستان انیس سو سینتالیس میں آزاد ہوا اس کے بعد سے لے کر اب تک کوئی ایسا وقت نہیں آیا اور نہ ہی کوئی پانچ سالوں کے دوران کوئی ایسا لمحہ آیا ہوں کہ جس میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم ہوئی ہو گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے اور سال 2019 کی بالکل ابتدا میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ جس میں بھارت کی فوجی اہلکاروں کو خود کش دھماکے کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پچاس سے زائد فوجی مارے گئے اس کے ساتھ بہت بڑی تعداد کے اندر فوجی زخمی بھی ہوئے جن میں سے اکثریت شدید زخمی تھے اور ان کے مرنے کا خدشہ تھا اس کے فورا بعد پاکستان کے خلاف جس طرح پر محاضرہ ہرزاسرائی کی اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی اور جیسے الزامات پاکستان پر لگائے گئے وہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں اگلے ہفتے کے دوران یہ کشیدگی اور تناؤ کا ماحول بڑھتا رہا جس کے بعد 26 فروری کو انڈیا نے اپنے دوست ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان پر حملہ کرنے کی مکمل تیاری کرلیں 12 طیاروں پر مشتمل ایک قافلہ پاکستان کی سرحد کو عبور کرکے پاکستان کے علاقے بالاکوٹ کی طرف آیا اور وھاں پر بمباری کی لیکن خوش قسمتی سے ان کو ٹارگٹ نہیں ملا جس کی وجہ سے ان کی بمباری کسی کام کی نہیں رہی

اور ان کو پاکستانی فضائیہ کے الگ ہوجانے کے بعد فورا واپس لوٹنا پڑا اور اپنی رفتار کو تیز کرنے کے لیے انہوں نے اپنا اظافہ فیول اور مینشن گرا دیا اس کے بعد پاکستان نے اگلے ہی دن سرجیکل اسٹرائیک کرتے ہوئے بھارت کے اہم ٹھکانوں پر بمباری کرتے ہوئے واپس آئے اور اس کے ساتھ بھارت کے دو طیارے بھی مارے گئے اس سے یہ بات تو واضح ہوئی کہ پاکستان کی فضائیہ بھارت کی فضائیہ سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہے اور تعداد میں کم ہونے کے باوجود ان کو ٹکر دینے کی بھرپور صلاحیت ان میں موجود ہے لیکن ایک بات جس کا خدشہ ظاہر کیا گیا

اور جس پر پاکستان کی افواج نے سوچا بھی وہ یہ تھا کہ پاکستان کے پاس اس وقت کوئی شارٹ رینج میزائل ڈیفنس سسٹم نہیں ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے اور پاکستان کے انتہائی اندر تک اگر وہ واپس لوٹ گئے پاکستان نے دوست کے ساتھ مل کے کوئی ایسا ڈیفنس سسٹم خریدا جائے کہ جو پاکستان کے لئے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے انتہائی مفید ہوں پہلے نمبر پر ترکی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے دورے کے دوران یہ بات ہوئی کی ترکی پاکستان کو اپنا میزائل ڈیفنس سسٹم مہیا کرے گ مزید تفصیلات جاننے کے لیے ویڈیو ملاحظہ کریں