کسی بھی حکومت کو چلانے میں سب سے بنیادی کردار بیوروکریٹس کا ہوتا ہے کہ جو اپنے ادارے کے ماہر ترین لوگوں میں سے شمار کیے جاتے ہیں اور یہ لوگ پالیسیز کو نافذ کرنے میں سب سے کارگر ہوتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی جگہ پر تبدیلیاں نہیں کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی بیوروکریسی ٹیکنو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ یہ تین ایسے علامات ہے کہ جو ہمارے ملک کی تباہی کا سب سے بڑا سبب ہے یہ لوگ اپنے مفادات کی خاطر پاکستان کی عوام کے ساتھ کسی طرح کی بھی حرکت کرنے سے نہیں چوکتے ان لوگوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان کے مالکوں کی جو مفادات ہوتے ہیں یہ انہی کی پیروی کرتے ہوئے سارے کام سرانجام دیتے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک اس بات پر لوگوں کا یقین بنائے رکھے ہوئے ہیں کہ نیک لوگ اس دنیا میں موجود ہے اور وہ کام کر رہے ہیں پاکستان کے بیوروکریسی کی تاریخ میں بہت سارے لوگ گزرے ہیں کہ جن کی وجہ سے پاکستان ایک منزل پر پہنچا ہے ان میں سے ایک نام شعیب سڈل کا ہے ان کا نام تب سامنے آیا
کہ جب ان کی مدد سے خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس ریفارم کا مطالبہ کیا اور ان کے حوالے سے کچھ کر دیا اس سے پہلے بھی ان کے کارنامے کسی سے مخفی نہیں ہیں جہاں بھی جاتے ہیں تو وہاں کا کردار بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے اور لوگ بلکل سیدھے ہو جاتے ہیں کے اندر شعیب سڈل کو یہ عہدہ دیا گیا تھا اور ٹارگٹ دیا گیا تھا کہ پنجاب پولیس کے اندر اصلاحات کی جائے لیکن سیاسی مداخلت کی وجہ سے انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کو ناراض کرنے کی بجائے ان سے کام لے اور سیاسی مداخلت کم سے کم کریں اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے ہیں کہ کیسے ایک پولیس کے آئی جی کو صرف ایک فون کال پر معطل کر دیا جاتا ہے جتنی سیاسی مداخلت بیوروکریسی میں کم ہو گی پاکستان اتنی ہی جلدی ترقی کرے گا ان شاء اللہ