خلیل کی فیملی بے گنا ہ دھشتگرد کون ؟


ساہیوال کا جیسا واقعہ پہلی دفعہ پاکستان میں پیش نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی قانون کی عملداری نافذ کرنے والے اداروں نے بہت سے بے گناہ لوگوں کو مار دیا ہے اور اس سے ہر ذی شعور شخص انکار نہیں کرے گا کہ ہمارے ملک کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پس پردہ کون سی قوت موجود ہے حال ہی میں ساہیوال کے اندر جو واقعہ پیش آیا اس کے اندر ایک خاندان کے 6 افراد سفر کر رہے تھے جب کہ اس کے ساتھ ان کا ایک دوست بھی تھا خلیل احمد نام کے شخص کے ساتھ اس کی بیوی اور چار بچے تھے اس واقعے میں خلیل اس کی بیوی اور اس کی بڑی بیٹی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ اس کے تین بچے محفوظ رہیں تو کس کے ساتھ اس کے دوست جو ڈرائیونگ کر رہا تھا جس کا نام ذیشان تھا اس کو بھی گولی ماردی گئی پہلے یہ خبر آئی کہ یہ بچوں کو اغوا کر رہے تھے اور اس کے بعد انہوں نے یہ کہا کہ یہ دہشت گردی تھے اس کے محلہ والوں کی طرف سے گواہی دینے کے بعد اور سوشل میڈیا پر شور و غوغا ہونے کے بعد معاملات تھوڑے بہتر کی طرف جانے لگے اور یہ امید لوگوں کو حل کیا انصاف ہوگا

لیکن وہ پاکستان ہی کیا کہ جس میں کسی کو انصاف ملے سب سے پہلے خلیل احمد کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس کو غلطی سے مارا گیا پھر ذیشان جس کی داڑھی تھی اس وجہ سے اس کو دہشتگردوں کا ساتھی کہا گیا اور یہاں تک کہا گیا کہ وہ مختلف دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا سوشل میڈیا پر بہت زیادہ شور ہونے کے بعد عمران خان نے مختلف عہدے داروں کو برطرف کردیا اور کہا کہ جی آئی ٹی بنائی جائے جو کہ اس واقعے کی تحقیق کرے جیڈی کی پہلی رپورٹ جائیں تو اس میں کہا گیا ذیشان جو گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا وہ دراصل ایک دہشتگرد کی تھی کہ جو 15 جنوری کو فیصل آباد میں مارا گیا تھا جس نے مختلف لوگوں کو جان سے مارا تھا ذیشان کے ساتھ بہترین تعلقات تھے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کلبوشن یادو جیسا آدمی میں جو پاکستان کے اندر خودکش دھماکے کروائے کرتا تھا پاکستان کے اندر تخریبکاری کروائے کرتا تھا اس کو تو بڑی محبت کے ساتھ رکھا ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ایک شخص صرف رابطے کی وجہ سے دن دہاڑے مار دیا جاتا ہے ذیشان دہشتگرد تھا یا نہیں تھا یہ الگ بحث ہے سوال یہاں یہ ہوتا ہے کہ کیا پولیس کے پاس ایسے اختیارات ہے کہ وہ بغیر مقدمہ چلائے کسی کو بھی سر راہ مار دے. مر جانے کے بعد کسی کو کسی بھی تنظیم کے ساتھ چھوڑ دینا انتہائی آسان کام ہوتا ہے خاص کر پاکستانی پولیس کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے پاکستان کے حالات اس وقت ایسے ہی کہ کوئی بھی شخص محفوظ نہیں اور کس شخص کو بھی شک کی بنا پر قتل کیا جا سکتا ہے ذیشان کے بارے میں مزید جی ٹی رپورٹ کیا کہتی ہے اس کے لئے ویڈیو ملاحظہ فرمائیں