عوام کو انصاف چاہیے


گزشتہ دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نزیر اکبر کا ایک بیان منظر عام پر آیا کہ جو دراصل ایک فیصلہ سناتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر اس وقت جس طرح کی تفتیش ہوتی ہے اور جو معاملہ عدالت کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اس کے بعد عدالت نے فیصلہ دینا ہوتا ہے لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ تفتیش کی معیاری نہیں ہوتی اور ناقص ہوتی ہے یہ جان بوجھ کر ناقص تفتیش کی جاتی ہے تاکہ فیصلہ اپنی مرضی کا حاصل کیا جا سکے لیکن اس کے بعد لوگ ججوں کو گالیاں دیتے ہیں اور اس کے ساتھ عدالت کے بارے میں لوگوں کے نازیبا الفاظ میں سرعام آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں پر انصاف نہیں ہوتا بلکہ یہاں پر ٹوپی ڈرامہ ہوتا ہے


ان کا کہنا تھا کہ ناقص تفتیش کی وجہ سے ہمیں فیصلہ کرنے میں دقت ہوتی ہے ہم فیصلہ کرتے ہیں تو وہ بھی ثبوتوں کی بنیاد پر کرتے ہیں اور جیسے ہمارے پاس ثبوت آئیں گے ہم نے فیصلہ بھی ویسے ہی کرنا ہے اگر پاکستان کے تمام چوروں کو پکڑنا ہے اور جلد از جلد فیصلے کرنے ہیں تو پھر یہ تمام نظام فوج کے حوالے کر دینا چاہیے ان کا کہنا تھا کہ فوجی پاس واحد ادارہ ہے جو کہ ملک کے اندر تبدیلی لاسکتا ہے اس لئے ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ چکا ہے کہ تمام چیزیں ان کے حوالے کردیا جائے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا تھا کہ ہم اداروں کے حدود متعین کریں گے کہ کس نے کس حد میاں کر کام کرنا ہے اور ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ فوج مداخلت کریں اس پر جسٹس کے بیان کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بالکل تباہ و برباد ہو چکا ہے اور وہ کبھی بھی انصاف فراہم نہیں کرسکتا مزید تفصیلات کے لیے ویڈیو ملاحظہ فرمائے