ملک ریاض کو اس وقت عدالتی کارروائیوں کا سامنا ہے کیونکہ اس نے نہ صرف سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے بہت سارے غریب لوگ کی جو کسی طرح سے مل کر اس کے خلاف کھڑے نہیں ہوسکتے تھے ان کی زمین پر بسنے قبضہ کر لیا لیکن سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کے خلاف ایک کیس کھول لیا اور اس کو مجبور کیا کہ وہ حکومت کو سارے ادائیگی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ بھی قبضہ چھوڑ دیں لیکن چونکہ معاملہ بہت بڑی رقم کا تھا اس لیے اس نے رقم ادا کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اس کے وکیلوں نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 300 ارب روپے تک پیسے دے سکتے ہیں اسی زیادہ نہیں دے سکتے ہیں جبکہ اس وقت کے چیف جسٹس کے اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر انصاف نہیں کیا جاسکتا
تو پھر تمام مقدمات کو فوجی عدالتوں کے حوالے کردینا چاہیے کیونکہ وہاں پر انصاف جلدی ہوتا ہے یاد رکھئے پاکستان کے اندر اس وقت جو مسائل سرفہرست ہے اس میں سے انصاف کی فراہمی بھی ہے اس وقت عدالتوں میں 20 لاکھ سے زائد ایسے کیسے سہی کہ جو پینٹنگ میں ہیں اور روزانہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے موجودہ جسٹس کا یہ کہنا کہ فوجی عدالتوں کے ذریعے انسان کو ممکن ہے یہ بالکل اس بات کی طرف اشارہ ہے اور اس بات کا اقرار ہے کہ ہماری عدالتیں سسٹم بالکل ناکارہ ہو چکا ہے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان تمام ججوں کو گھر بھیج دیا جائے کہ جب تمام کام فوجیوں نے ہی کرنے ہیں کسی بھی ملک کے اندر فوجی عدالتوں لگائی جاتی ہے کہ جب جنگ ہو رہی ہوں اور جن کے اندر عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہو تو پھر فوجی عدالتوں کو لگایا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں انصاف کی فراہمی کے لئے بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے یہ ہمارے سسٹم کی ناکامی کی بہت بڑی وجہ ہے مزید تفصیلات کے لیے ویڈیو ملاحظہ فرمائیں