سانحہ ساہیوال اور عمران خان


ساہیوال میں جو دلخراش واقعہ پیش آیا ہے دراصل یہ ایک ٹیسٹنگ کیس ہے اس حکومت کے لئے کہ وہ کس طرح سے انصاف فراہم کر سکتی ہے اور کیسے ان لوگوں کو جو ڈالے گی اور کیسے ان کو سزائے موت دی گئی کہ جو پاکستان کی عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے ان کو جان سے مار دیتی ہے یاد رہے تھے یاد رہے اس سے پہلے حکومت میں شہباز شریف جب پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلی تھے تو ماڈل ٹاؤن کا واقعہ پیش آیا جس میں خواتین اور مردوں کو گولی ماری گئی اس وقت عمران خان پوزیشن میں تھے اور انہوں نے اس پر سخت رد عمل دیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس کہ سپاہیوں کی اس میں غلطی نہیں ہے کیونکہ ان کو جو حکم ملتا ہے وہی کرتے ہیں اس لئے سپاہیوں کو گرفتار کرنے کے بجائے اور لوگوں کو گرفتار کیا جائے کہ جنہوں نے اس کا حکم دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلی کو فورا استعفی دینا چاہیے اور رانا ثناءاللہ جو پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر قانون ہے انکو فورا جیل میں ڈال دینا چاہیے ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت اگر آگے

تو میں سب سے پہلے ان لوگوں کو انصاف دلاؤں گا حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے کبھی بھی ماڈل ٹاؤن کے بارے میں بات نہیں کی اور نہ کبھی یہ کہا کہ ہم انصاف فراہم کریں گے بلکہ انہیں کی حکومت میں راوانور جیسا شخص باہر پھر رہا ہے اور اس کو پورے پروٹوکول کے ساتھ لایا جاتا ہے عمران خان کو سب سے پہلے قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار سے استعفیٰ لے لے اس کے ساتھ چونکہ وہ خود وزارت داخلہ کا قلم اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اس لئے ان کو خود جوابدہ ہونا چاہیے اور تمام معاملے کو خود رکھنا چاہیے اگر یہ اس معاملے کے اندر شروع ھو گئے اور جو کردار اس واقعہ میں ملوث تھے ان کو کڑی سے کڑی سزا دی گئی تو عمران خان کو پانچ سال حکومت مزید کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا یہ ایک ٹیسٹنگ کے سہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ عمران خان اس کے اندر پاس ہو جائیں گے