سانحہ ساہیوال کے ابتدائی رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس میں رپورٹ دی تھی کہ انتہائی خطرناک دہشتگرد اس وقت ساہیوال میں موجود ہے اور ان کی گاڑی کی ہے اور کمپنی کی گاڑی ہے ان کا پیچھا کیا جائے اور جہاں موقع ملے ان کو مار دیا جائے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گاڑی کا مسلسل پیچھے کیا ایک جگہ پر ہم نے گاڑی روکی اور ہم نے ان پر فائرنگ کھول دی اس وقت گاڑی میں چار بچے موجود تھے ماں نے بچوں کو اپنے آغوش میں لیا اور ان کو بچانے کی کوشش کی تین بچے بچ گئے جبکہ ایک بچی کو گولیاں لگی جو اپنی ماں کے ساتھ ہی مر گئی اس کے بعد اہلکاروں نے بچوں کو وہاں سے نکالا اور ایک پٹرول پمپس چھوڑ دیا جس کے بعد ایک اور گاڑی آئی اور اس نے مقتولین کی گاڑی سے زیورات اور کپڑے وغیرہ نکالی اور اس کو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ ایک اور گاڑی دوبارہ آئی جس پر نمبر پلیٹ بھی نہیں لگا تھا اس نے گاڑی پٹرول پمپ کے پاس لگا کر بچوں کو اٹھا لیا اور ان کو ہسپتال چھوڑ دیا بچے کا کہنا تھا کہ میرے والد صاحب نے اس سے کہا تھا کہ پیسے لے لیکن ہمیں جان سے نہ مارے لیکن ان لوگوں نے ہم پر گولیاں چلائیں اس سے اتنا اندازہ ہوتا ہے گاڑی والوں کے ساتھ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کی بات ہوئی تھی لیکن شک کی بنیاد پر ان کو گولیوں سے بھون دیا گیا جس کے بعد کچھ تصاویر لی گئیں
اور ان کو انٹیلی جنس کے پاس بھیجا گیا جہاں سے جواب آیا کہ انہوں نے لوگوں کو جان سے مارا ہے اس کے بعد رپورٹ آئی کی یہ لوگ اغواکار تھے جبکہ سی ٹی ڈی کا کہنا تھا یہ خطرناک دہشتگرد تھے جنہوں نے عورتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا معاملہ سوشل میڈیا پر آیا لوگوں نے احتجاج کیا اور خوب مذمت کی جس کے بعد وزیر اطلاعات سامنے اور انھوں نے بھی ب**** کرکے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکا اس کے بعد پنجاب کے وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی ایسے باتیں کی کہ جس کی وجہ سے لوگوں میں مزید غصہ بڑھا شام تک پاکستان کے صوبے پنجاب کے وزیر قانون بھی سامنے آگئے اور انہوں نے نصر ان کو دہشت گرد ثابت کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گاڑی سے خودکش جیکٹس کی گرنیڈ اور خطرناک ہتھیار بھی برآمد کر ڈالے اسے بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اس وقت اپنے اہلکاروں کو بچانے کیلئے ہر طرح کے اقدامات کر رہی ہے اور انصاف ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا