زرداری کی گرفتاری رک کیسے گئی


گزشتہ دن شاید پاکستان کی تاریخ میں ا کیسے دن تھا جو سیاست اور ملکی سلامتی کے بارے میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری اور پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی ڈیلر کو عدالت میں طلب کیا گیا تھا اور امید کی جا رہی تھی ان دونوں کو سزا ہوجائے گی لیکن حکومتی وزیروں کی کارکردگی اور نالائقی کی وجہ سے اور آصف علی زرداری کی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے ان کو نہ صرف جیل سے واپس واپس آنا پڑا بلکہ ان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کا تصور بھی نہیں کیا گیا ترس کچھ دن پہلے جب بھٹو کی بیٹی بے نظیر کی برسی تھی تو اس موقع پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بہت جلد ان خلاف کاروائی کریں گے اور ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالیں گے جس کے بعد آصف علی زرداری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگ لڑنا ہمیں بھی آتی ہے اور ہم جنگ لڑ کے دکھائیں گے ہم نوازشریف کی طرح نہیں ہے عمران خان کی سیٹوں کی سبقت کی وجہ سے حکومت کررہے ہیں اور سینیٹ میں بھی جو بندہ بیٹھا ہوا ہے

وہ بھی صرف ہمارا نمائندہ ہے اگر ہم چاہیں تو حکومت کو بڑی آسانی کے ساتھ گرا سکتے ہیں اس کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ سندھ کو گیس اور دوسرے مت میں اخراجات برداشت کرنے پر رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں اس کو کچھ بھی نہیں مل رہا اور ان کے ساتھ دوسرے پارٹی کے لوگ بھی شامل تھے جس کی وجہ سے حکومت پر ایک طرف سے دباؤ پیدا ہو گیا اور یہ تاثر پھیل گیا کہ فیصلہ پہلے سے تیار رکھا ہوا ہے اور معمولی کروائیں کے بعد ان کو جیل میں ڈال دیا جائے گا یہ حکومتی کارندوں کی مکمل ناکامی ہے اور ایک بہت بڑا موقع تھا جس میں آصف علی زرداری جیسے آدمی کو جیل ہو سکتی تھی اور ان سے اربوں روپیہ وصول کیا جاسکتا تھا لیکن وہ حکومتی وزیروں نے وقت سے پہلے ہی بات کرکے اس معاملے کو بگاڑ دیا اور معاملہ بیرونی اور اندرونی اور خرابی کی طرف جا رہا تھا جس کی وجہ سے حکومت نے فی الحال آصف علی زرداری کی گرفتاری کو موخر کر دیا