ملک ریاض کی گرفتاری اور میڈیا کی باری


پاکستان کے اندر ایک بہت بڑی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ ایسے لوگ جو کہ کرپشن کے دیوتا تھے ان کے خلاف حکومتی گھیرا تنگ ہو رہا ہے اور وہ جلد ان کو بھی پابند سلاسل ہونا پڑے گا اور ان کو بھی اپنی دولت کا حساب دینا پڑے گا پاکستان میں ملک ریاض کو ایک ایسی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے کہ جو کسی کو بھی خرید سکتا ہے چاہے وہ کوئی جج ہو چاہے کوئی جرنیلوں چاہے کوئی وکیل ہوتا ہے کوئی میڈیا کا ادارہ ہو یا پھر کوئی سیاستدان اور ایسا ہوا بھی ہے لیکن حال ہی میں ان کے خلاف کرپشن کے جو الجماعۃ لگے ہیں اور ان کے خلاف تحقیقات ہورہی ہے اس ایسا لگ رہا ہے کہ بہت جلد ملک ریاض بھی اندر ہو جائے گا اور اس کے جتنے بھی اثاثے ہیں وہ بھی خاک ہو جائیں گےیاد رہے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے 31 دسمبر کو ملک ریاض اور آصف علی زرداری کو عدالت میں طلب کیا ہے اور ان کے خلاف جے آئی ٹی نے کی ریفرنس کے تحت زیادہ ثبوت اکھٹے کیے ہیں

اور امید کی جا رہی ہے ملک ریاض زرداری دونوں کو عدالت سے گرفتار کر لیا جائے گا اور ان کی ضمانت بھی نہیں ہوگی ملک ریاض پر اس وقت 16 ریفرنسز دائر ہے اور ان میں ایسے ریفرنس سے شامل ہیں کہ جو منی لانڈرنگ کے حوالے سے ہے دراصل کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے پاکستان پریمیئرلیگ کا سہارا لیتے ہوئے بہت زیادہ پیسہ باہر بھجوایا اور پھر وہاں سے واپس ہونے کے ذریعے ڈالر کی شکل میں منگوایا گیا اور ان کے بہت زیادہ خوف یہ اکاؤنٹ بھی ہے جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ منی لانڈرنگ میں ان کے ساتھ آصف علی زرداری بھی شامل ہیںآصف علی زرداری بھی مطلوب ہیں اور ان کے خلاف بیان میڈیا کے سے چل رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر ان کو سزا ہو جاتی ہے تو کم سے کم سات سال کی سزا ہوگی اور ان کو جرمانہ بھی اربوں روپے میں ہوگا جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک ریاض کے تمام اثاثہ جات کو حکومت اپنی تحویل میں لے لی گئی ہے اور ان کو بھی جیل ہوگئی اس کے ساتھ ساتھ ایک ریفرنس میڈیا کے مالکان پر بھی ہے اور یہ اس بارے میں ہے کہ ان کو بھی منی لانڈرنگ کے لیے استعمال کیا گیا ہے