پروفیسر نے اپنے لیکچر کے دوران گریجویشن کر رہی لڑکیوں سے پوچھا.ذرا مجھے بتائیے کہ اس ہال میں بیٹھی کتنی لڑکیوں کے بوائے فرینڈس ہیں؟.


اسلام آباد (30جولائی 2017)پروفیسر نے اپنے لیکچر کے دوران گریجویشن کر رہی لڑکیوں سے پوچھا.ذرا مجھے بتائیے کہ اس ہال میں بیٹھی کتنی لڑکیوں کے بوائے فرینڈس ہیں؟.

یہ سن کر ہال میں بیٹھی لڑکیاں خوشی خوشی کھڑی ہو گئیں. اور اکیلی بیٹھی خاموش اس لڑکی کو حقارت آمیز نظروں سے دیکھ کر قہقہے لگانے لگیں.جس کا کوئی بوائے فرینڈ نہ تھاایک گائوں میں ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ کچھ ان بن ہو گئی.ابھی جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناءمیں ان کا مہمان آ گیا. خاوند نے اسے بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ دار مہمان آیا ہے اس کے لیے کھانا بناو.وہ غصّے میں تھی کہنے لگی تمہارے لئے کھانا ہے نہ تمہارے مہمان کے لئے.وہ بڑا پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری اپنی ہے،اگر رشتہ دار کو پتہ چل گیا تو خواہ مخواہ کی باتیں ہو گی.لہٰذا خاموشی سے آکر مہمان کے پاس بیٹھ گیا.اتنے میں اسے خیال آیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت اچھے ہیں،خاندان والی بات ہے،میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لیے کہہ دیتا ہوںچنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ میری بیوی کی طبیعت خراب ہے لہٰذا آپ ہمارے مہمان کے لئے کھانا بنا دیجئے.انہوں نے کہا بہت اچھا،جتنے آدمیوں کا کہیں کھانا بنا دیتے ہیں.وہ مطمئن ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا جس سے عزت بھی بچ جائے گی.تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا‘ذرا ٹھنڈا پانی تولا دیجئے.  وہ اٹھا کہ گھڑے کا ٹھنڈا پانی لاتا ہوں.اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی صاحبہ تو زار و قطار رو رہی ہے. وہ بڑا حیران ہواکہ یہ شیرنی اور اس کے آنسو.کہنے لگا کیا بات ہے؟اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا.کہنے لگی: بس مجھے معاف کر دیں.وہ بھی سمجھ گیا کہ کوئی وجہ ضرور بنی ہے.اس بچارے نے دل میں سوچا ہو گا کہ میرے بھی بخت جاگ گئے ہیں. کہنے لگا کہ بتائو تو سہی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے کہا کہ پہلے مجھے معاف کر دیں پھر میں آپ کو بات سناو¿ں گی.خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہےمیں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور آپ کو معاف کردیا ہے.کہنے لگی‘کہ جب آپ نے آکر مہمان کے بارے میں بتایا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لئے کچھ پکے گا اور نہ مہمان کے لئے،چلو چھٹی کرو تو آپ چلے گئے.مگر میں نے دل میں سوچا کہ لڑائی تو میری اور آپ کی ہے،  اور یہ مہمان رشتہ دار ہے،ہمیں اس کے سامنے یہ پول نہیں کھولنا چاہئے.چنانچہ میں اٹھی کہ کھانا بناتی ہوں.جب میں کچن(باروچی خانہ) میں گئی تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے،ایک سفید ریش آدمی اس بوری میں سے کچھ آٹا نکال رہا ہے.میں یہ منظر دیکھ کر سہم گئی. وہ مجھے کہنے لگا: اے خاتون!پریشان نہ ہو یہ تمہارے مہمان کا حصّہ تھا جو تمہارے آٹے میں شامل تھا.اب چونکہ یہ ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے،اس لئے وہی آٹا لینے کے لئے آیا ہوں.مہمان بعد میں آتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اس کا رزق پہلے بھیج دیتے ہیں.