ذوالفقار علی بھٹو کی خفیہ شادی، خاتون کو ن تھیں؟


بھٹو صاحب کی پہلی ملاقات حُسنہ سے ڈھاکہ میں ہوئی تھی، جب وہ وزیر تھے اور حُسنہ عبدالاحد نامی بزنس مین کی بیوی تھی، اس کی دو بیٹیاں تھیں اورکچھ برس بعد کراچی میں ان کی ایک بیٹی چنن کی شادی ہوئی جس میں بھٹو صاحب بھی شامل تھے۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد حُسنہ نے شیخ عبدالاحد سے طلاق لے لی اور کراچی چلی آئیں۔‎بھٹو صاحب

عمرے کے لئے جانے لگے تو مولانا کوثر نیازی نے ازراہ مذاق یہ کہا کہ جناب آپ اللہ کے گھر جا رہے ہیں، حُسنہ صاحبہ سے اپنا تعلق لیگل کرلیں۔ بھٹو صاحب مان گئے اور کوثر نیازی کا کہنا ہے میں نے بڑی سادگی سے ان کا نکاح پڑھایا تھا، لیکن کسی طرح یہ اطلاع بیگم نصرت بھٹو تک پہنچ گئی اور انہوں نے نیند کی گولیاں کھالیں۔ بھٹو صاحب بہت پریشان ہوئے اور جب ان کی حالت سنبھلی تو انہوں نے یقین دلایا کہ آپ میری قانونی بیوی ہیں اور فرسٹ لیڈی ہی رہیں گی۔ حُسنہ کو کراچی میں ”منزل“ نامی گھر میں شفٹ کردیا گیا۔ بھٹو صاحب کے دوراقتدار میں متعدد وزراءان سے ملنے اس ”منزل“ نامی گھر میں جاتے تھے۔ حُسنہ جو بہت حسین بنگالی خاتون تھیں ان کی آواز HUSKY تھی۔ بھٹو صاحب کی خواہش کے مطابق حُسنہ نے اپنا نام بدلنے کی کبھی کوشش نہ کی اور ہمیشہ حُسنہ شیخ ہی رہیں۔ بھٹو صاحب کے سارے قریبی جاننے والے اس بات سے آگاہ تھے۔ سندھ انتظامیہ کی طرف سے گھر کی دیکھ بھال کی جاتی تھی اور لان اور باڑ کی صفائی بھی سرکاری اہلکاروں کے ذمہ تھی۔ کراچی میں حُسنہ نے ایک ٹریول ایجنسی چلائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ایک فائیوسٹار ہوٹل میں پارٹنر تھیں ان کی والدہ انڈین تھیں اور کلکتہ کی رہنے والی تھیں جبکہ باپ بنگالی تھا۔ دو بھائی تھے جو حُسنہ کے ساتھ ہی پاکستان آگئے تھے۔ اس کا ایک بھائی کراچی میں ایک ملز کا مالک تھا جبکہ دوسرا حُسنہ کے ساتھ ہی بھٹو صاحب کے بعد لندن چلا گیا۔ حُسنہ کی بیٹی چنن کی شادی پر نور جہاں اور مہدی حسن نے بھی گیت گائے تھے۔ مولانا کوثر نیازی کے ایک انٹرویو میں بھی کوثر نیازی نے حُسنہ اور بھٹو کی شادی اور نکاح کا ذکر کیا ہے۔‎سٹینلے والپرٹ کی ایک کتاب میں بھی حُسنہ شیخ کا تذکرہ موجود ہے اور یہ لکھا ہے کہ 1961ءمیں بھٹو صاحب کی ڈھاکہ میں اس سے ملاقات ہوئی تھی جب وہ مرکزی وزیر تھے اور ان کی عمر 34 سال تھی۔ حُسنہ نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھٹو صاحب میری خوبصورتی سے نہیں بلکہ میری ذہانت سے متاثر ہوئے تھے۔ سٹینلے والپرٹ نے لکھا ہے حُسنہ اور بھٹو صاحب کے مابین ذہن‘ جسم اور روح کا تعلق تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ 1990ءتک حُسنہ کا کچھ مشترکہ بزنس سندھ کے سابق وزیراعلیٰ جام صادق مرحوم سے بھی تھا۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے تو حُسنہ نے عرب امارات کے سربراہ شیخ زید بن سلطان النہیان سے بار بار ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی کہ بھٹو صاحب کو رہا کروائیں لیکن انہیں کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ شیخ زید نے کوشش بھی کی مگر ضیاءالحق نہ مانے‘ مرتضیٰ بھٹو نے اپنے والد کی رہائی کے لئے جو مہم چلائی اس کے لئے حُسنہ نے عرب ریاستوں کے سربراہوں سے فنڈز بھی حاصل کئے اور آخر میں مایوس ہوکر وہ دبئی سے لندن چلی گئیں تاہم دبئی ان کا دوسرا گھر رہا ہے کیونکہ شاہی خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات بھٹو صاحب ہی نے قائم کروائے تھے۔‎حُسنہ شیخ کے بارے میں آخری معلومات بہت اہم ہیں اور عام لوگوں کو ان کے بارے میں کم ہی معلوم ہے کہ دبئی سے لندن جانے کے بعد وہ کیا کرتی رہیں۔ بھٹو صاحب کی زندگی میں وہ مسلسل ان کی رہائی کے لئے کوشاں رہیں بعد میں انہوں نے کچھ عرصہ شدید پریشانی کے عالم میں گزارا۔ پھر لندن سے اردو میں روزنامہ ”ملت“ شائع کرنا شروع کیا ظاہر ہے کہ وہ اخبار نویس نہیں تھیں صرف فنانسر تھیں۔ جن لوگوں کے سپرد اخبار کی ادارت عملاً تھی وہ پیشہ وارانہ اعتبار سے زیادہ مضبوط نہیں تھے۔ انہوں نے مولانا کوثر نیازی کے بارے میں ایک سٹوری شائع کی کہ وہ ”لوطی“ ہیں۔ برطانیہ کے قوانین انتہائی سخت ہیں اور اگر آپ نے جو تحریر چھاپی ہو اسے ثابت نہ کرسکیں اور مقدمہ کرنے والا اپنی عزت کی قیمت جتنی مقرر کرے عام طور پر اس رقم کی ڈگری ہوجاتی ہے۔ کوثر نیازی نے یہی دھمکی دی تھی کہ میں آپ کا اخبار تک بکوا دوں گا۔ مجھے رقم یاد نہیں لیکن اچھی خاصی مقدار تھی اور واقعی ان مالی مشکلات کی وجہ سے ”ملت“ بند ہوگیا۔ کہتے ہیں آج کل حُسنہ شیخ نے سیاسی لوگوں سے ملنا جلنا ترک کررکھا ہے اور وہ انتہائی سادگی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہی ہے۔