ثبوت موجود ہیں کسی کے ساتھ نرمی نہیں کی جائے گی،پانامہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی


ثبوت موجود ہیں کسی کے ساتھ نرمی نہیں کی جائے گی،پانامہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی
اردو آفیشل جے آئی ٹی رپورٹ پر پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ سوال یہ تھا پراپرٹی کب خریدی گئی ، فنڈ کہاں سے آئے اور کہاں گئے؟وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ سب کی منی ٹریل دیں گے ۔ منی ٹریل کہاں ہے ، جواب نہیں دیا جا رہا۔وزیر اعظم نے کہا انکے پاس تمام دستاویزات کی منی ٹریل موجود ہے مگر عدالت کے سوالوں کے جواب نہیں دیے جا رہے۔ نیلسن اور نیسکول سے متعلق کوئی دستاویزات نہیں دی گئی۔ منی ٹریل کا جواب آج تک نہیں دیا گیا ۔ قطری خط سمیت جنتا ریکارڈ پیش کیا گیا وہ اچھا نہیں تھا ۔جے آئی ٹی نے جو کیا اس پر ٹرائل ہونا ہے۔ساری چیزیں ہیں ، آنکھیں بند نہیں کریں گے۔جے آئی ٹی کے مواد پر فیصلہ کریں گے یہ واضح رکھیں۔بادی النظر میں وزیر اعظم کے خلاف کیس بنتا ہےدیکھنا ہے فیصلہ خود کریں یا ٹرائل کورٹ کو بھیجیں۔ آپکو اپنے پتے شو کرنے چاہیئے تھے۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس اعجا زافضل کی سربراہی میںجے آئی ٹی رپورٹ پر پاناما عملدرآمد کیس کی تیسری سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے دلائل کا آغاز کیا ۔ طارق حسن کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت کل ( جمعرات ) تک ملتوی کر دی۔
تین رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے یہ جواب نہیں دیا پراپرٹی کب خریدی اور فنڈ کہاں سے آئے ۔ فلیس کی خریداری کے فنڈز برطانیہ کیسے پہنچے؟فنڈز سعودی عرب دبئی یا قطر میں تھے ، سوال یہ ہے کہ فنڈز کیسے لندن پہنچے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کیلئے کب اور کس نے ادائیگی کی ؟میاں شریف نے فنڈز کہاں سے اور کیسے منتقل کیے، بنیادی سوال کا جواب مل جائے تو بات ختم ہو جائے گی ۔وزیر اعظم کو علم تھا کہ وہ اسمبلی میں کیا کہہ رہے ہیں ، وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ میں بتاﺅں گا کہاں سے فلیٹ لیے۔ حسین نواز نے کہا کہ وہ مالک ہیں مگر دستاویزات نہیں دی گئیں ۔ یہ فرض کر لیں کہ یہ میاں شریف کے ہیں تو کچھ شیئر تو نوازشریف کا بھی ہو گا۔
بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ مہینوں سے سن رہے ہیں فلیٹ ملکیت کے علاوہساری چیزیں واضح ہیں۔ اس کیس کے تمام پہلو ہم پر واضح ہیں ۔ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وزیراعظم خو د کسی پراپرٹی کے مالک ہیں ۔ ہم مسلسل ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔دیکھنا ہے فیصلہ ہم نے کرنا ہے یا معاملہ ٹرائل کورٹ کو بھیجنا ہے۔ شہرت ایسی ہونی چاہیے جس کے بعد کسی وضاحت یا شک کی ضرورت نہ پڑے۔
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نے رشتہ داروں کی جائیداد کو نہیں چھپایا ، جے آئی ٹی کے پاس کچھ ہوتا تو سوال ضرور کرتی ۔ وزیر اعظم کی کوئی بے نامی جائیداد نہیں ۔ انہوں نے ٹیکس ریٹرن میں اثاثے ظاہر کیے ۔ وزیر اعظم کا کسی ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ، جے آئی ٹی نے لندن فلیٹس سے متعلق غلط نتائج اخذ کیے۔ کیا وزیر اعظم ان اثاثوں کے لیے جواب دہ ہیں جو انکے ہیں ہی نہیں۔ فلیٹس سے متعلق تمام امور میاں شریف سر انجام دیتے تھے۔ بچے 1995ءتک زیر کفالت تھے صرف اس عرصہ کا وزیر اعظم سے پوچھا جا سکتا ہے۔جے آئی ٹی نے مزید کسی اثاثے سے متعلق سوال نہیں کیا ۔ وزیر اعظم کے ڈکلیئر اثاثوں کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں ، بیوی بچوں کے اثاثو ں کا کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ۔ کسی منسلک شخص کے اثاثوں سے فائدہ اٹھانے والا ملزم نہیں ہو سکتا۔ کسی کے گھر جا کر رہنے والے سے اس گھر سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ قانون میں آمدن اور اثاثوں کے ذرائع کا تذکرہ ہے، قانون میں اس شخص کا بھی ذکر ہے جس کے قبضے میں اثاثہ ہو ۔آپکے مطابق کسی کے گھر رہنے والے پر نیب قانون کا اطلاق نہیں ہو گا ؟زیر استعمال ہونا اور بات ہے ، اثاثے سے فائدہ اٹھاناالگ بات ہے۔ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں دوسرے کے گھر کچھ عرصہ رہنے والا ملزم نہیں بن سکتا؟لگتا ہے بے نامی دار کی تقریف لکھتے وقت نیب قانون میں کوئی غلطی ہوئی ہے، بے نامی دار کی اصل تعریف ہم سب جانتے ہیں اور مانتے بھی ہیں ۔ جے آئی ٹی نے معلوم کروایا کہ مریم نواز بینی فشل مالک ہیں اور باہمی قانونی معاونت سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ٹریجڈی یہ ہے کہ کون مالک ہے اس کی دستاویزات بھی موجود نہیں ۔ امگر مالک کا پتہ چل جائے تو یہ سوال آتا ہے کہ خریداری کیلئے پیسہ کہاں سے آیا ؟ساری چیزیں ہیں ، آنکھیں بند نہیں کریں گے۔
مریم نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے مختصر دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ پاناما کیس سے متعلق کچھ ریکارڈ دبئی اور دیگر ممالک آگیا ہے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے استفسار کیا کہ وہ کیا ریکارڈ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میںاس وقت میڈیا کو خبر نہیں دینا چاہتا ، جسٹس عظمت سعیدنے ریمارکس دیے کہ کوشش کی جاتی تو 38سال پرانا ریکارڈ بھی مل سکتا ہے۔کچھ ریکارڈ دبئی اور ابو ظہبی سے حاصل کیا جارہا ہے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن نے کہا کہ میرے موکل گزشتہ 34سال سے ٹیکس ریٹرن دے رہے ہیں۔جے آئی ٹی نے اسحاق ڈار کومعاملے میں گھیٹنے کی کوشش کی ۔اسحاق ڈار سے متعلق جے آئی ٹی رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں۔ اسحا ق ڈار کھلی کتاب کی طرح ہیں ان پر کوئی الزام نہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیے کہ اسحاق ڈار پر سنگین الزامات ہیں اور جے آئی ٹی نے ان کے بارے سفارشات بھی دی ہیں۔اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثوں کا الزام ہے۔ایف بی آر اسحاق ڈار کی وزارت کے ماتحت ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ گوشوارے ٹریس نہ ہونے کا مطلب گم ہونا یا فائل ہن ہونا ہے۔