آصفہ بھٹو کی خودکشی کی کوشش ،زرداری کا بھیانک چہرہ سامنے آگیا


اسلام آباد(اردو آفیشل)روزنامہ خبریں کے مطابق مطلوب وڑائچروزنامہ نوائے وقت کے کالم نگار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ماں کی شہادت کا سنتے ہی ماں سے شدید محبت کرنے والی بیٹی آصفہ بھٹو اپنے جذبات سے باہر ہوگئی اورشدید کرب میں مبتلا ہوکر اپنے بازو کی نس کاٹ کر خودکشی کی کوشش جس پر صدر زرداری اوردیگر خاندان میں تشویش کی لہر دوڑ

گئی ، جب آصف زرداری اپنی جابرانہ صدارت کے 5سال پورے کر چکے تو 2013ءمیں پی پی کو شکست ہوئی۔ جیالوں نے یہ سوچ کر صبر کر لیا کہ پچھلے 5سال ہم نے حکومت نہیں کی بلکہ کسی ناکردہ گناہ کا کفارہ ادا کیا ہے کیونکہ انہیں ایک امید نظر آ رہی تھی کہ اب بلاول بھٹو اپنے نانا اور شہید ماں کے ویژن‘ سوچ اور فلسفے کو لے کر آگے بڑھیں گے اور ایک دفعہ تو ایسے ہی لگا کہ یہ ہو گا مگر جب زرداری نے دیکھا کہ پاور کا توازن ان کے ہاتھ سے نکل کر محترمہ کے بیٹے بلاول کے ہاتھ میں منتقل ہو رہا ہے تو وہ اپنے داؤ پیچ لڑانے لگے۔ پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔جب زرداری جیل سے ضمانت پر رہا ہوئے تو انہوں نے پارٹی پر قبضہ جمانا شروع کیا تو اس وقت پارٹی میں ایک گروپ نے زرداری کی پالیسیوں کے خلاف پیپلزپارٹی کے اندر جی سیون کے نام سے ایک گروپ تشکیل دیا جس میں مرحوم ڈاکٹر جہانگیر بدر‘ افضل سندھو‘ قیوم نظامی‘ اسلم گل‘ بدر چودھری‘ میاں خالد سعید مرحوم اور رقم شامل تھے جس کا پہلا اجلاس راقم کے گھر جوہر ٹاؤن میں منعقد ہوا۔ عرفان اللہ مروت کی پارٹی میں شمولیت کی مذمت اور ناراضگی کیلئے بینظیر کی دونوں بیٹیوں کے ٹوئٹ سے جیالوں کو نئی زندگی ملی۔ راقم کو فون کئے گئے کہ بی بی کی نوجوان ٹیم ان کے مشن کو آئندہ نسلوں تک منتقل کر سکتے ہیں وگرنہ سیاسی چیلوں اور گدھوں کا ٹولہ جس میں آصف زرداری‘ فریال تالپور‘ سراج درانی‘ ڈاکٹر عاصم اور دوسرے لوگ پارٹی کیلئے زہر قاتل ہیں۔ بینظیر کو گاڑی سے باہر نکلنے کیلئے کس نے کہا اور کس نے گولی چلائی منظر عام پر۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ عزیر بلوچ نے گرفتاری کے بعد بڑے اہم بیانات دیئے ہیں۔ خالد شہنشاہ کے قتل کی بات بھی عزیر بلوچ نے کی ہے اور یہ وہی خالد شہنشاہ ہے جو اس وقت بینظیر کے ساتھ تھا۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ بینظیر بھٹو نے گاڑی کی چھت سے اس لئے سر باہر نکالا کہ اسے بیٹی آصفہ بھٹو کا فون آیا تھا۔ آصفہ بھٹو انہیں ٹی وی پر براہ راست دیکھ رہی تھیں‘ اس وقت انہیں ہاتھ ہلانے کیلئے غالباً باہر نکلیں۔ اسی اثناءمیں سربازی بلوچ جو عزیر بلوچ سے جڑا ہوا تھا‘ نے گولی چلا دی۔