احتیاط علاج سے بہتر ہے۔یہ اصول ازل سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ذیابیطس کے دوران خون میں شوگر کی شرح کا اضافہ ہوجاتا ہے۔رسمی طور پر اس بیماری کا اعلاج موجود نہیں مگر متواتر احتیاط اور مکمل آگاہی سے اس پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔جسم کو پانی کی مناسب مقدار میں فراہمی اور فائبر سے بھرپور غزا ذیابیطس کو بڑھنے سے روک سکتی ہے۔میٹھی اجذا کم کھانا بھی ذیابیطس کے مریضوں کے لئے مفید ہے۔
ذیابیطس کے دوران صرف صحت مند غزا کا حصول ہی لازمی نہیں بلکہ بہت سی صحت مند غزا بھی ذیابیطس کے مریضوں کے لئے نقصان دہ ہے۔مثال کے طور پر کشمش جو کہ ایک صحت مند خوراک کے طور پر استعمال کی جاتی ہے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے فائدہ منر نہیں ہے اور ہمیشہ ڑاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال نہیں کی جاتی۔اس کے علاوہ ایسے تمام میوہ جات جو کہ مختلف پھلوں کو خشک کر کے تیار کئے جاتے ہیں وہ تمام ذیابیطس کے مریضوں کے لئے مضر قرار ریئے گئے ہیں۔جس کی وجہ یہ ہے کہ ان میوہ جات میں مٹھاس اور گلیسمک انڈکس کی مقدار زیادہ ہوتی ہ
ے۔ ایک کپ انگور میں 27 گرام کاربو ہائیڈریٹ جبکہ ایک کپ کشمش میں 115 گرام ہوتی ہے جو شوگر لیول کو بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔اسی طرح تربوز اور خربوزہ کا زیادہ استعمال بھی نقصان دہ ثابت ہوا ہے کیونکہ ان میں مٹھاس کا عنصر پایا جاتا ہے۔تربوز میں گلیسمک انڈکس کی شرح 27 جبکہ خربوزے میں 65 ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگر سبزی کی بات کی جائے تو آلو بہت اہمیت کا حامل ہے اس میں بہت سے صحت مند اجزا موجود یوتے ہیں مگر اس کا استعمال بھی ذیابیطس کے مریضوں کے لئے مفید نہیں کیونکہ کاربو ہائیڈریٹس اور گلیسمک انڈکس وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ۔
پھلوں میں آم جو کہ بارشاہ قرار دیا جاتا ہے سب سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے مگر ذیابیطس کے مریض آم کا استعمال بھی جی بھر کے نہیں کر سکتے کیونکہ اس میں مٹھاس اور گلیسمک انڈکس وافر مقدار میں موجود ہوتے ہیں ۔
دودھ جو کہ نہایت مکمل غزا ہے ذیابیطس کے مریضوں کو اس کا استعمال بھی بہت احتیاط سے کرنا چاہیے کیونکہ چکنائی یا ملائی ملا دودھ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ جوسز کا استعمال بھی اچھا ہے مگر پھلوں کو کھا لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔جوس پھلوں کے فائبر ختم کر کے اصل غذایئت کو تباہ کر دیتے ہیں جوسز میں ملا ئی جانے والی شکر بھی شوگر لیول کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ۔