نیروبی: آب و ہوا میں تبدیلی ( کلائمٹ چینج) کی وجہ سے اہم فصلیں تیزی سے زہریلی ہوتی جارہی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فصلیں ردِ عمل کے طور پر زہریلے مرکبات خارج کرتی ہیں جو انسانوں کے لیے شدید نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
نیروبی میں اقوامِ متحدہ کے تحت ہونے والی ماحولیاتی اسمبلی میں سائنسدانوں نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ بعض فصلیں شدید موسمیاتی کیفیات جھیلنے کے لیے خاص اجزا خارج کرتی ہیں جو زہریلے ہوتے ہیں اور اگر طویل عرصے تک ان کا استعمال کیا جائے تو صحت پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یو این ای پی کے ماہر کے مطابق اگر خشک سالی اور شدید درجہ حرارت ہو تو پودے عین اسی طرح برتاؤ کرتے ہیں جس طرح انسان کرتے ہیں، عام حالات میں پودے جذب کرنے والے نائٹریٹس کو پروٹین اور امائنو ایسڈ میں بدلتے ہیں لیکن طویل خشک سالی میں مکئی، گندم، جو، سویابین اور سرسوں وغیرہ کی فصلوں پر شدید خشک سالی کے بعد بارشیں ہوجائیں تو ان میں ہائیڈروجن سائنائیڈ جمع ہوتا ہے جو زہریلا مرکب ہوتا ہے اور اسے پروسک ایسڈ بھی کہتے ہیں۔
2013 میں کینیا اور 2005 میں فلپائن میں انسانوں میں ہائیڈروجن سائنائیڈ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ کینیا میں شکر قندی جیسا ایک پھل، کساوا کھانے سے 2 بچے بھی ہلاک ہوگئے تھے اور ان میں پروسک ایسڈ کی زیادتی تھی۔ 2004 میں بھی ایفلا ٹوکسن سے 300 افراد ہلاک ہوئے تھے جنہوں نے مخصوص اناج کھایا تھا۔ ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے سے مزید فصلیں زہریلی ہوجائیں گی اور اس مسئلے پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔