مساجد میں ہونے والے حملوں پر بعض انڈین جشن کیوں منا رہے ہیں؟


دنیا بھر میں نیوزی لینڈ میں واقعہ مسجد پر حملہ ہونے کے بعد اس کی شدید مذمت کی گئی اور اور وہاں کے رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا بھارت کے اندر اس کا ایک بالکل برعکس رویہ دیکھنے کو ملا اور اکثر لوگوں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ مسلمانوں نے جو ہمارے فوجیوں کے ساتھ کیا تو آج ان کے ساتھ ہمارے دوستوں نے ان سے بدلہ لے لیا


بات کا اعتراف ‘انتہا پسندی’ اور ‘دہشت گردی’ کے لیے مسلمانوں کو ہمیشہ مورد الزام ٹھیرانے والے پاکستانی نژاد کینیڈا کی معروف شخصیت طارق فتح نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی کی ہے۔انھوں نے لکھا: ‘جس ظالمانہ انداز میں بعض ہندوستانی نیوزی لینڈ میں ہونے والے قتل عام کا جشن منا رہے ہیں وہ قابل نفرت ہے۔’میں ان تمام لوگوں کو بلاک کر دوں گا جو 49 معصوم نمازیوں کے قتل عام کو دل خوش امر سمجھتے ہوئے اپنے کمنٹس کے ساتھ مجھےبھی ٹیگ کرنے کی جسارت دکھا رہے ہیں۔’ان کی اس پوسٹ کو ڈیڑھ ہزار بار ری ٹویٹ کیا گیا ہے سات ہزار سے زیادہ لوگوں نے لائک کیا ہے جبکہ ایک ہزار سے زیادہ لوگوں نے اس پر تبصرہ کیا ہے۔ انڈیا کے دارالحکومت دہلی میں واقع جواہر لعل نہرویونیورسٹی میں استاد اور ماہر عمرانیات ڈاکٹر تنویر فضل نے کہا کہ سوشل میڈیا کا مسئلہ ذرا پیچیدہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دراصل سوشل میڈیا پر اکثر اکاؤنٹس ایسے ہوتے ہیں جو فیک ہوتے ہیں لیکن یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ سارے سیاستدان سوشل میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس واقعے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے دراصل مغرب کا جو مسلمانوں کے خلاف ایک مائنڈ سیٹ ہے اور جو اسلامی ممالک اور مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت کا رویہ پایا جاتا ہے اس کو ہم نے من و عن منتقل کر دیا ہے اور اب ہندوستان کے اندر بھی یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جہاں پر دنیا بھر میں دہشت گردی ہو اس کو اسلام کے ساتھ لیول کر دیا جائے اور الزام پاکستان پر لگا دیا جائے جبکہ دوسری طرف آسٹریلیا کے سینیٹر نے بھی ایک ایسے ہی نفرت انگیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان ایسے ہی ہے اور وہ ملک کو تقسیم کرنے کے درپے ہے اس وجہ سے اگر کسی نے اس کے خلاف کارروائی کی تو یہ کوئی بڑی بات نہیں اور اس کی پوری دنیا میں شدید مذمت کی جا رہی ہے کہ ایک سینیٹر اگر ایسی بات کررہا ہے تو ایک عوام کی سوچ ہوگی