نیوزی لینڈ کے شہر چرچ کاسٹ میں مسلمانوں پر حملہ ہوا جس میں بڑی تعداد کے اندر مسلمان شہید ہوئے اور کئی زخمی بھی ہوئے جن کی تعداد درجنوں میں بتائی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ زخمیوں میں سے اکثریت کی حالت نازک ہے وہ کسی وقت بھی دنیا سے کوچ کر سکتے ہیں یہ ایک بڑا اور عظیم سانحہ ہے کہ جس میں مسلمانوں کو ان کی مسجد میں نشانہ بنایا گیا اس وقت مسلمان اپنے ہاتھوں محفوظ ہیں اور نہ ہی دیگر لوگوں سے محفوظ ہے ہر طرف مسلمانوں کی خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہے تفصیلات کے مطابق آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کچھ دن پہلے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے خاص کر فیس بک پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد شیئر کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے بھی اکسایا کارروائی سے قبل حملہ آور نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اپنا منشور بھی شئیر کیا جس میں اس حملے کے پس پردہ عزائم اور اپنے مقاصد سے متعلق آگاہ کیا۔دہشت گرد نے ٹویٹر پر جاری اپنے عزائم میں بتایا کہ یہ حملہ ان لوگوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا گیا ہے جو ہمارے ملک میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب تک سفید فام افراد زندہ ہیں یہ لوگ کبھی بھی ہمارے ممالک اور ہماری سرزمین پر قابض نہیں ہو سکتے
دہشت گرد کا کہنا تھا کہ ہماری سرزمین پر آکر بسنے والے ان لوگوں کی وجہ سے کئی یورپی شہریوں کی جانیں گئیں جس کا بدلہ لینے کے لیے یہ کارروائی کی گئی اس کا کہنا تھا کہ یہ کروائیں ہم اس لیے کررہے ہیں کیونکہ مسلمانوں نے ہمارے بڑوں کی زمینوں پر قبضہ کیا اور اس کے بعد وہاں سے بیدخل کیا انہوں نے ہمارے خلاف جنگ لڑی میری کوشش ہے تم ان لوگوں کو سبق سکھاؤں کہ سفید فام ابھی بھی زندہ ہے اور تم لوگوں کو ہماری سرزمین پر قبضہ نہیں کرنے دیا جائے گا میرے اس کاروائی سے نثر مسلمانوں کو یہاں سے بھاگنے کا موقع ملے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر لوگ جو ہمارے سر زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں وہ بھی ڈر جائیں گے اور اپنے ارادے سے باز آ جائیں گے اس نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ سے انتہائی زیادہ متاثر ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی سفید فام افراد کی سپر میسی کی بات کرتا ہے اور وہ میرا فیورٹ ہے میں چاہتا ہوں کہ اس جیسا بندہ یہاں پر بھی حکومت کریں یاد رہے اس وقت نیوزی لینڈ میں اسی ہزار سے زائد مسلمان آباد ہیں اور گزشتہ دہائی میں ان کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ مسلمان فیملی کی صورت میں رہتے ہیں اور اپنے بچوں کی پیدائش کے معاملے میں یورپ میں رہنے والے لوگوں سے الگ رجحان رکھتے ہیں اس لیے ان کی آبادی میں اضافہ سفید فام لوگوں نے اپنے لیے خطرے کے طور پر لیا ہے اور یہ کروائی بھی اسی پس منظر میں کی گئی ہے