2001 میں امریکا تقریبا دنیا بھر کی افواج کو لے کر افغانستان پر حملہ آور ہوا اور کہا کہ ہم طالبان کو نیست و نابود کردیں گے ہم ان کو ختم کردیں گے 18 سال سے زیادہ عرصہ ہوا لیکن نہ طالبان ختم ہوئے اور نہ ہی القاعدہ ختم ہوا بلکہ ان کی تعداد بڑھتی گئی اور ان کے علاقے بڑھتے گئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب امریکہ کی حکومت سنبھالی تو اس نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ دنیا بھر سے ان کی افواج اور ان کے جوانوں کو واپس بلایا جائے گا تاکہ وہ امریکہ کی ترقی میں دوبارہ سے کردار ادا کرسکیں اور لے کر جایا جاسکے جوہر امریکی شہری کا خواب ہ افغانستان میں موجود طالبان اس وقت تقریبا 80 فیصد سے زائد علاقے پر عملی حکومت کر رہے ہیں جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادی صرف کابل تک محدود ہے اور جب بھی کہیں پر جاتے ہیں تو پورے لشکر کے ساتھ جاتے ہیں اس کے باوجود طالبان کہیں نہ کہیں گھات لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں
اور ان کی حالت خراب کردی چھوڑ دیتے ہیں امریکی س وقت بری طرح سے طالبان کے درجے میں ہیں اس وجہ سے طالبان کے ساتھ وہ مذاکرات پر تیار ہوئے بلکہ ان کی مرضی کی شرائط بھی تسلیم کرلی سب سے پہلے شرط یہ تھی کہ امریکا طالبان کے قیدیوں کو رہا کردیں امریکہ نے فورا قیدی رہا کر دیے جس کے بعد دوسری شرط یہ لگائی گئی تھی کہ امریکہ کی تمام افواج افغانستان سے چلی جائے جس کو امریکہ کے صدر نے منظور کرلیا اور انہوں نے کہا کہ دو مرحلوں میں ہم اپنے پاس لے کر جائیں گے پہلے مرحلے میں تقریبا 7000 سے زائد افواج واپس چلی جائیں گی جبکہ اتنی ہی تعداد میں پیچھے فوجی رہ جائیں گی جس کے بعد معاملہ طالبان اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے درمیان چھوڑ دیا جائے گا حال ہی میں انھوں نے روس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہم افغانستان کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیں گے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تمام غیر ملکی افواج افغانستان چھوڑ کر چل جائے مزید تفصیلات کے لیے ویڈیو ملاحظہ فرمائیے