سعودیہ میں قحط کا سال جب انسانوں کو کھانے کے سوا کوئی اور طریقہ جان بچانے کا نہیں تھ ا


سعودیہ اس وقت دنیا کے متمول ملکوں میں شمار ہوتا ہے جس کے تیل کے ذخائر دنیا کے بڑے ذخآئر میں شمار ہوتے ہیں اس کے ساتھ یہ دنیا میں خام مال سپلائی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ فضول خرچی کرنے والی قوم بھی یہی ہے اور سب سے زیادہ روزانہ کی بنیادوں پر کھانا بھی یہی پر ضائع ہوتا ہے ۔ لیکن کیا آپ یقین کر سکتے ہیں کہ ان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا کہ شدید خشک سالی کی وجہ سے یہاں کہ لوگ انسانوں کو کھانے کی تیاری کر چکے تھے ۔ یہ 1909 کا سال تھا جب سعودیہ شدید خشک سالی کا شکار ہوا۔یہ خشک سالی اتنی سخت تھی کہ گھروں میں کچھ مقدار میں کھجور ، ایک گندم کی روٹی اور تھوڑا سا دودھ استعمال کیا جاتا تھا ۔ اور اگر کسی گھر میں گھی ہوتا یا چائے ہوتی تو وہ خوش قسمت تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی دور کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا گیا ۔ کہ ایک گاؤں کے 4 دوستوں نے کہیں سے اپنے لئے کھانا لانے کی ٹھان لی اور سفر پر نکل گئے ۔ اتنے میں ایک خاتون ان کے پاس ایک جوان کو لے کر آئی اور کہا کہ اس کو بھی  سفر میں ساتھ لے جاؤ اگر کچھ لے آیا تو ٹھیک اور اگر اسے کسی نے راستے میں قتل کیا تو میں ابھی سے خون معاف کرتی ہو۔ اور وہ جوان ایک آدمی کے سپرد کر ڈالا ۔ یہ لوگ 3 دن چلتے رہے لیکن انہیں کچھ بھی نہیں ملا ۔ یہاں تک شدید بھوک کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے ، اس آدمی کے دوستوں نے کہا کہ اگر ہمیں کچھ نہ ملا تو ہم مر جائے گے ۔ اس لئے اس جوان کو قتل کرکے کھا لیتے ہیں ۔ لیکن اس آدمی نے انکار کر ڈالا اور کہا کہ اس کی ماں نے میرا اعتبار کیا ہے اور وہ میں نہیں تھوڑ سکتا ۔ خیر کچھ ہی دیر  میں انہوں نے ایک کتی کو دیکھا جس کے ساتھ اس کے ساتھ بچے بھی تھے ۔ انہوں نے اسے پکڑ کر ذبح کر ڈالا اور اسے کھا لیا اور یوں ان کی جان بچ گئی ۔ اسی دور کی یاد میں سعودیہ میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس کا نام بھوک سے ضیاع کو سفر تھا ۔ اس میں لوگوں کو اسراف سے بچنے اور خوراک کو ضائع کرنے سے رکنے کی ترغیب دی گئی /۔