ڈریکولا کی حقیقت


ڈریکولا کا نام ہم سب نے سنا ہے اور اس پر بنی فلمیں اکثریت نے دیکھی ہے ۔ ڈریکولا ایک تخیلاتی کردار ہے جس میں اسے ایک عفیرت بنا کر دکھایا جاتا ہے جو کہ رات کو اپنے تابوت سے نکلتا ہے اور اس کے ساتھ وہ لوگوں کو تلاش کر کے ان کا خون پیتا ہے ۔ اور اس کے ساتھ دن کا اجالا اس کے لئے موت کا پیامبر ہوتا ہے اور جب بھی اسے دھوپ لگائی جاتی ہے تو وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے ۔ ڈریکولا نامی کتاب کے آنے کے بعد اس پر ہالی ووڈ ، بالی ووڈ اور دنیا کے دیگر ممالک میں کئی فلمیں بنی ہیں لیکن بہت کم لوگوں نے اس کی آصل حقیقت پر بات کی ہے ۔ حال ہی میں ڈریکولا پر ایک نئی فلم سامنے آئی جس میں اس کی کچھ حقیقت بھی دکھائی گئی ہیں ۔ ڈریکولا کا لفظ ، ڈریکول سے نکلا ہے جس کا مطلب کیلوں والا یا ھر شیطان ہے اور ڈریکولا کا مطلب شیطان کا بیٹا ہے ۔ یہ نام سب سے پہلے ڈریکولا کے باپ کو دیا گیا ۔ جب اس نے خلافت عثمانیہ کے خلاف ایک تنظیم میں شمولیت اختیار کی تو اس کو ولاد کا نام دیا گیا یعنی شیطان کا بیٹا ۔ یہیں نام بعد میں ولاد دوم کو بھی دیا گیا ۔ ڈریکولا دراصل ولاشیا کا شہزادہ تھا ۔ اس کے قریب ممالک ان سے زیادہ طاقتور تھے ۔ کہتے ہیں سلطان محمد الفاتح کے دور میں ان کے ساتھ مسلمانوں نے ایک معاہدہ کیا ۔ کہ اگر ولاد اول اپنے دونوں بیٹوں راڈو اور ولاد سوئم کو ان کی تربیت میں دے تو خلافت عثمانیہ ان کی حفاظت کریں گی ۔ ولاد کے باپ نے فورا تسلیم کر لیا اور دونوں بیٹوں کو جدید تعلیم کے لئے استنبول بھیج دیا ۔ یہ دونوں اس وقت کی جدید تعلیم حاصل کرتے رہیں ۔ راڈو نے اسلام قبول کر لیا لیکن ولاد غیر مسلم ہی رہا ۔ سلطان محمد الفاتح نے ولاد کو اس کی جوانی میں ہی اس کے باپ کی بادشاہت دے دی اور اس سے معاہدہ کیا کہ ایک مخصوص کراج سلطنت کو دی جائے گی ۔ ولاد جب واپس آیا تو کچھ ہی عرصہ بعد اس نے نظریں پھیر لی ۔ ایک دن خلافت عثمانیہ کا وفد اس کے دربار میں آیا اور ولاد سے کہا ۔ کہ ہمیں سلطان نے آپ سے خراج لینے کے لئے بھیجا ہے ۔ ولاد نے پہلے ان کا مزق اڑایا اور کہا کہ اپنے سر کی پگڑیاں اتار کر میرے دربار میں آو۔ مسلمانوں کا ماننا تھا کہ یہ ایک عزت و دستار ہے اور یہ صرف اللہ کے سامنےاتر سکتا ہے ۔ اس لئے انہوں نے انکا ر کر دیا ۔ ڈریکولا نے حکم دیا کہ ان سب کے سروں میں کیل ٹھوک دئے جائے ۔ اس ظلم کے بعد سلطان نے ان کے بالکل قریب کے والی حمزہ پاشا کو حکم دیا کہ وہ ولاد کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے لے آئے ۔ اولاد کی تربیت ترکوں کے ہاتھوں ہوئی تھی اس لئے وہ جانتا تھا کہ جنگ کیسے کی جاتی ہے اس نے ۔ گھات لگا کر پاشا کو اس کی 20 ہزار فوج سمیت ختم کر ڈالا اور ان میں سے کسی کو نہیں بخشا ۔ سلطان نے اس کے بعد راڈو جو کہ ڈریکول کا بھائی تھا اسے بھیجا ۔ جس نے بہادری سے جنگ لڑتے ہوئے اس شکست دی اور اسے پکڑ کر زندان میں ڈال دیا ۔ جب راڈو کی وفات ہوئی تو ملک میں خانہ جنگی کی وجہ سے ڈریکولا پھر سے آزاد ہوگیا ۔ بالآخر 1476 میں سلطان محمد دوم کی فوج نے بوشارست میں ڈریکولا کی فوج کا سامنا کیا جہاں ڈریکولا کی موت ہوئی اور اسکے ساتھ اس کا سر کاٹ کر استنبول کے مرکزی دروازے میں لٹکایا گیا ۔ جہاں یہی سر کئی مہنوں تک لٹکا رہا ۔