آب زمزم کا کنواں شاید دنیا کا سب سے پرانا کنواں ہے جو کہ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ حضرت حاجرہ کی اللہ سے دعا اور بچے کی جان بچانے کی تگ و دود کی نشانی ہے ۔ اس کنواں کے پانی کو اللہ کے گھر جانے والے مہمانوں کے لئے خاص کیا گیا ۔آپ ﷺ نے اس پانی کو بہت پسند کیا ۔ اور حدیث کا مفہوم ہے کہ اس پانی کے پینے سے شفاء ملتی ہے اور اس کے ساتھ جو اس کے پیتے ہوئے کوئی دعا مانگے تو وہ بھی قبول ہوتی ہے ۔ اس پانی کے کچھ ایسے خواص ہے جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں ۔اور اس کنویں کے پانی پر کئی ممالک کے سائنس دانوں نے بھی تجربات کئے ان میں سے ایک جاپان کے سائنس دان بھی تھے جنہوں نے اس پانی کے خوآص کو جاننے کے بعد مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا ۔ یہ پانی حجاج اپنے ساتھ اپنے ملکوں میں بھی لے کر جاتے ہیں ۔ اس پانی پر سائنس دانوں نے تجربہ کیا کہ اس میں کرنٹ گزرتا ہے یا نہیں تو نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اس پانی کے خواص ایسے ہیں جس کی وجہ سے اس میں کرنٹ نہیں گزرتا ۔ ایسے ہی اس پانی کو پینے سے شفاء کا ملنا ایک عام بات ہے ۔ اس کے ساتھ اس پانی کا مسلسل جاری رہنا بھی اس بات کی نشانی ہے کہ اس ریگستان میں یہ پانی ہونا اس کا مسلسل جاری ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ یہ پانی خاص اللہ کا ایک تحفہ ہے ۔ جو اللہ نے اس زمین پر اپنے محبوب لوگوں کے لئے بھیجا ہے ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ کو اس ریگستان میں چھوڑا تو ان کے پاس کچھ کھجورے اور پانی تھا جو چند ہی دن میں ختم ہو گیا ۔ جب حضرت اسماعیل ؑ کو پیاس لگی تو بی بی حاجرہ صفا و مروہ پہاڑی کے درمیان تیز تیز بھاگنے لگی کہ کہیں کوئی پانی نظر آجائے لیکن جب سات چکر مکمل کرنے کے بعد اپنے بچے کے پاس آئی تو دیکھا کہ اس کی ایڑیوں کے پاس سے پانی نکل رہا ہے ۔ یہ اللہ کی ذات کا کرشمہ تھا کہ اس ریگستان وہ ویران علاقہ میں ایک پانی کی نہر جاری کردی جو تب سے اب تک مسلسل چلتا ہوا آرہا ہے ۔