امریکی وزارت مردم شماری کے اندازوں کے مطابق اس وقت دنیاکی آبادی 7 ارب سے تجاوز کرچکی ہے اور عین ممکن ہے کہ ان 7ارب میں سے کوئی ایک چہرہ ایسا بھی ہو جو یوں تو آپ کیلئے اجنبی ہو لیکن ناک کی ساخت، بالوں کی موٹائی، ابرو کا خم ایک دوسرے سے بے حد مماثلت رکھتا ہو۔ ایک دوسرے سے مماثلت رکھنے والے ان افراد کو ‘ڈوپل گینگر’ کہا جاتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ایسے افراد جڑواں افراد کی طرح ایک دوسرے سے ملتے ہیں تاہم چہرے کی ساخت کو بیان کرنے والے اہم نقوش کے ایک جیسے ہونے کی وجہ سے یہ ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اپنا ہم شکل تلاش کرنے کیلئے آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے دو ٹی وی پروڈیوسرز اور ایک انجینیئرنگ کی طالبہ پر مشتم اس گروہ نے جاننے کا فیصلہ کیا کہ کیا وہ 28 دن میں اپنا ہم شکل ڈھونڈ پائیں گے؟
ٹوئن سٹرینجرز نامی اس پروجیکٹ کے تحت اس گروہ نے فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام یو ٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا پیجز پر اپنے اکاؤنٹ تیار کئے اور ان سب پر یوزرز سے بس یہی درخواست کی کہ کیا انہوں نے ان تین میں سے کسی ایک سے ملتی جلتی شکل کا حامل فرد دیکھا ہے؟
اس پروجیکٹ میں شامل گیئرنی کہتی ہیں کہ پہلے دن وہ صبح دس بجے سے رات دو بجے تک انٹرنیٹ پر موجود رہیں اور اس دوران صرف ایک ہی کام کیا کہ وہ اپنے دوستوں سے یہ درخواست کرتی رہیں کہ وہ ان کے پیغام کو شیئر کریں۔ صرف دو ہفتے میں ان کی مہم اس قدر مشہور ہوئی کہ صرف ایک دن میں موصول ہونے والے پیغامات کی تعداد6ہزار تک جا پہنچی۔
ان میں ایسے افراد کی تصاویر بھی شامل تھیں، جنہوں نے مماثلت نکال لی تھی۔ گیئرنی کو بھی اسی عام مفروضے پر یقین ہے کہ دنیا میں ایک شکل کے جیسے سات لوگ ہوتے ہیں اور اس پر ان کا یقین اس وقت کچھ زیادہ مستحکم بھی ہوگیا جب ان کی سہیلی نے ان کی ملاقات29سالہ کیرن سے کروائی جن کی آنکھوں کی رنگت، ناک کی ساخت اور کسی حد تک چہرے کے دیگر نقوش بھی گیئرنی سے ملتے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ ملتی جلتی شکل کی حامل خاتون سے ملنے کیلئے تو گیئرنی ذہنی طور پر تیار تھیں تاہم انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کی ہم شکل کیرن عادات میں بھی انہی کے جیسی ہوں گی۔ دونوں اپنی پوری پیٹھ پر خارش کرسکتی ہیں، دونوں کو ڈرائنگ سے دلچسپی ہے اور دونوں عام طور پر پریاں بناتی رہتی ہیں۔ڈوپل گینگر ہونے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چہرے کے نقوش انسانی ماحول اور جینز کی بدولت ہوتے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی فارینزک مالیکیولر بائیولوجسٹ ڈینیئل کہتے ہیں کہ اگر بالکل ہم شکل جڑواں بچوں میں سے ایک کو خط استوا اور دوسرے کو گرین لینڈ میں پروان چڑھایا جائے تو بھی دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے۔ کیونکہ ان کی غذا، جسمانی سرگرمیاں، سورج کا سامنا کرنے کی مدت اور درجہ حرارت تک سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف ہوگا۔
کیرن اور گیئرنی کے معاملے میں دونوں کے ایک جیسے دکھائی دینے کی بڑی وجہ یہی تھی کہ دونوں ایک جیسے ماحول میں پروان چڑھیں تھیں۔ ڈینیئل کی رائے میں ایک جیسے نقوش والے افراد کو ڈھونڈنا کوئی اہم بات نہیں بلکہ ہم نسل افراد میں ایسے بہت سے افراد ڈھونڈے جاسکتے ہیں جو کہ ہر لحاظ سے ایک جیسے دکھائی دیں تاہم یہ مماثلتیں اس لئے ہوتی ہیں کہ ان کے ڈی این اے ایک جیسے ہوتے ہیں۔
ماہرین تاحال جینیٹکس میں ان پہلوؤں کی نشاندہی نہیں کرسکے ہیں جو کہ چہرے کی ساخت پراثر ڈالتے ہیں۔ جس دن ماہرین یہ طے کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ جینز کا کون سا حصہ ناک کی ساخت اور کون سا حصہ کانوں کی ساخت کا ذمہ دار ہے، اس دن سے شائد والدین کیلئے یہ طے کرنا بھی آسان ہوجائے کہ وہ ہوبہو ایک جیسے جڑواں بچوں کے والدین بنیں۔[youtube https://www.youtube.com/watch?v=L4jv1Vafpgo]