لڑکیوں کے بعد لڑکے فراہم کرنے والی ویب سائٹس کا بھی انکشاف ہوا ہے ، ویب سائٹس پر آن لائن فارم پرکرکے ممبرشپ کروانے والوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا اور متعدد گھرانے تباہ ہونے لگے، ایف آئی اے نے غیر ذمہ دارانہ خاموشی اختیار کرلی۔
روزنامہ خبریں کے مطابق مشرقی ممالک میں ہم جنس پرستی کی قانونی آزادی کے بعد وہاں کی نسلیں تو تباہ ہوچکی ہیں جو کہ نسل کشی کے مترادف ہے جبکہ پاکستان میں بھی اس طرح کی درجنوں ویب سائٹس ہم جنس پرستی کو فروغ دینے کیلئے شب و روز کوشاں ہیں۔ ان ویب سائٹس پر ایک فارم دیا گیا ہوتا ہے جس کو پر کرکے ان ویب سائٹس کے ممبرز بننے کے بعد ویب سائٹ پر دیگر ممبران کے ساتھ رابطے کئے جاتے ہیں اور پھر باہمی تعلقات استوار کیا جاتا ہے۔ ان ویب سائٹس پر لاہور، فیصل آباد، ملتان، کراچی، حیدر آباد، سکھر، راولپنڈی،ا سلام آباد اور سیالکوٹ سمیت ملک بھر سے بدفعلی کرنے اور کروانے والوں کی بڑی تعداد وزٹ کرتی اور ان پر اپنی رجسٹریشن کرواکر اپنی جنسی ہوس کو پورا کرتی اور کرواتی ہے۔
ان ویب سائٹس پر جنس تبدیل کروانے والے افراد کی تصاویر، عمریں، پتہ، موبائل نمبرز درج ہوتے ہیں جبکہ بدفعلی کے عادی افراد ان ویب سائٹس پر موجود ایسے مواد سے اپنی پسند کا لڑکا پسند کرتے اور پھر اس سے رابطہ کرتے ہیں اور بعدازاں ملاقات کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک کی طرح بظاہر تو پاکستان میں ہم جنس پرستی کا کوئی ایسا قانون موجود نہیں ہے جس میں ہر خاص و عام کو ہم جنس پرستی کی اجازت دی جائے لیکن اس کے باجود سوشل میڈیا پر اس طرح کی ویب سائٹس کے ذریعے باآسانی اس غلیظ ترین عمل کیلئے سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف ایف آئی اے اور پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی قانونی کارروائی نہ کرنا بھی کسی گناہ سے کم نہیں ہے جبکہ یہ ادارے مکمل طور پر اس حوالے سے بااختیار ہیں کہ وہ ملکی اور اسلامی قوانین کے خلاف سوشل میڈیا پر کسی بھی عمل کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائیں۔ سوشل میڈیا پر سرعام اس قدر بدکاری کی پبلسٹی اور فروغ تمام بااختیار اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔